دردِ دل کے واسطے ۔۔۔
فائقہ کوئی سرٹیفائڈ ماہر نفسیات نہیں تھی پھر بھی لوگ اسکے پاس اپنے درد کی دوا لینے آتے رہتے تھے اپنے مسائل اس سے شئیر کرتے وہ انکے درد سن لیتی بہتے آنسو پونچھ لیتی اور موسم کے حساب سے ٹھنڈا گرم بھی پیش کرتی اور کوئی مناسب سے حل ڈھونڈ دیتی خواتین اپنا دکھ درد سنا کے فائقہ سے حل پا کے شانت ہو کے گھر کو روانہ ہو جاتیں ۔ کبھی کبھی فائقہ کو اپنی جیب بھی ہلکی کرنا پڑ جاتی لیکن اسے کبھی مشکل نہیں لگا بس اپنی کسی چھوٹی موٹی خواہش کی قربانی دینا ہوتی تھی ۔
اب یہ بات بھی نہیں تھی کہ دنیا میں بس ایک فائقہ ہی عاقل بوا تھی بات صرف اتنی تھی کہ انسانی نفسیات کے مطابق تکلیف کو ایک ہوادان چاہئے ورنہ دل کو روگ لگ جاتے ہیں اپنی تکلیف کسی سے بانٹ لینے سے کم ہو جاتی ہے اور کچھ لوگوں کی رب سننے کی ڈیوٹی لگا دیتا ہے فائقہ سوچتی بس یہ کوئی بغیر تاروں سے جڑا کوئی انٹرنیٹ ہوتا ہے شائد میں بھی چنیدہ ہوں ۔ جو شخص کسی مشکل میں گھرا ہوتا یے مشکل کی افتاد میں اسے کوئی حل نہیں سوجھتا جب کہ دیکھنے سننے والے کو اس کا حل سامنے والی شیلف پہ دھرا نظر آتا ہے وہ اٹھا کے پیش کر دیتا ہے اور سنانے والا ہلکا پھلکا ہو کے اور اپنے ہی مسائل اور اپنے ہی گھر سے نکلا ہوا حل اٹھا کے چلتا بنتا ہے کانوں کان آپکی شہرت دھیرے دھیرے پھیلنے لگتی ہے کہ فلاں عقل مند یے حلیم طبعیت ہے اس کے پاس مسائل کا حل ہوتا ہے ۔۔۔
فائقہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا لوگ اس کے پاس آتے اور شفایاب ہو کے دعائیں دیتے ہوئے جاتے ۔ خاندان اور محلے کی کئی حل شدہ کہانیاں اسکے سمندر سینے کی تہہ میں غرقاب تھیں ۔ تین سال پہلے اس نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پہ اپنا اکاؤنٹ بنایا تو یہاں بھی اسے ایسے ہی لوگ ملنے لگے جو اپنے مسائل کا حل اور مشورہ اس سے چاہتے تھے ۔۔ اس کا انباکس مردو زن کی کہانیوں سے بھرا رہتا ۔ تب کبھی نفسیات نہ پڑھنے کے باوجود اسے پہلی بار اندازہ ہوا کہ لوگ اس کے پاس اپنے درد بانٹنے کیوں آتے ہیں شائد اسکے کامنٹس کا توازن کچھ ایسا ہوتا تھا لفظوں سے کوئی صندلیں خوشبو نکلتی تھی رویہ مخملیں تھا جیسے زخموں پہ مرہم دھرا جاتا ہے ان میں سے اپنائیت اور رازداری کی خوشبو نکلتی تھی ۔۔ جب سے اس نے سوشل میڈیا جوائن کیا تھا مسائل کا ڈھیر لگ گیا لوگ اس کے کندھے پہ آنلائین ہی سر رکھ کے رونا چاہتے تھے اور کچھ تو مسیحائی کے لئے اسی کے دامن سے لپٹ جانا چاہتے تھے وہ جان بوجھ کے نظر چرا لیتی ۔ وہی فائقہ کچھ دنوں بلکہ کچھ مہینوں سے کافی الجھن میں تھی زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات میں اونیچ تو چلتی ہی رہتی ہے تاہم کچھ معاملات مستقل ایک مشکل صورت حال میں پھنسنے کی وجہ سے ذہن پراگندگی کا شکار تھا ۔۔
اسے لگا وہ دن بدن ڈپریشن کی طرف جا رہی ہے اسے خود پہ ضبط رکھنا آتا تھا اور وہ اکثر خود کو مضبوطی سے سنبھالے بھی رکھhtgتی تھی لیکن کبھی انسان چھلک بھی جاتا ہے ۔۔ یا تکلیف زیادہ بھاری ہو جاتی یے آج اسکے ساتھ یہی ہوا تھا ۔۔۔ جب ظرف کا پیالہ لبریز ہوگیا تو بے ساختہ فرار کو جی چاہا اسے لگا اگر اس ٹینشن کو کسی سے شئیر نہیں کیا تو دل پھٹ جائے گا ۔۔ ایک لمحے کو سوچا اور شوہر کو کال ملائی ھو گھنٹہ بھر پہلے ہی اپنے آفس گیا تھا گھنٹی بج رہی تھی اسے یاد آیا اس وقت تو وہ میٹنگ روم میں ہوتا ہے اس نے خود ہی کال کاٹ دی اور بہن کو فون ملایا ایک کال دو کال تین مسلسل کالز پہ بہن نے فون پک نہیں کیا ۔ یہ وہی بہن تھی جس کے کئی برسوں سے سسرالی ظلم و ستم سے لبریز آنسو ابھی بھی اسکے کندھے پہ سسک رہے تھے ۔۔ اور فائقہ تسلیوں سے اسے بساتی آئی تھی ۔ اسے شدید مایوسی ہوئی ۔۔۔ اس نے بمشکل خود کو کچھ بھی منفی سوچنے کے لئے روکا ۔۔
پھر ایک اور بہن کو کال ملائی اس نے پہلی ہی کال پہ ریسیو کر لی لیکن صرف یہ کہنے کے لئے کہ اس وقت اسے بار بار کال کر کے ڈسٹرب نہ کرے وہ اپنے بچے کے ساتھ کہیں باہر جا رہی ہے ۔۔ اس نے تیسری کال اپنی بچپن کی دوست کو ملائی اس نے کہا ابھی تھوڑی دیر میں خود کال کرتی ہوں اس وقت بزی ہوں فائقہ کا دل ہی بھر آیا وہ بری طرح مایوس ہو رہی تھی ۔۔ اس نے سوچا مجھے ضرورت پڑی ہے تو سب ہی مصروف ہیں دفع کرو میں کسی سے بات ہی نہیں کرتی ۔۔
لیکن پھر دل نے زور مارا تو امید کا سرا پکڑا اور فیس بک کی ایک دوست کو کال ملائی وہ فیس بک پہ ہر وقت اس کا دم بھرتی تھی اور نتیجے میں سینکڑوں لوگ اسے فالو کر لیتے تھے کیونکہ فائقہ نے ایک مالی مسئلے میں اسکی مدد کی تھی اور اپنے رشتہ داروں سے بھی سالانہ زکوة دلوائی تھی لیکن اس وقت اس کا فون بند تھا ۔۔۔ اپنی ایک اور فین کو فون کیا جسے تسلیاں دینے کے لئے کئی جگہوں پہ وہ اپنی مثال دے دیا کرتی تھی یوں اس سے ایک گھریلو تعلق بن گیا تھا اس نے بھی کال پک نہیں کی ۔۔ فائقہ نے گھبرا کے وحشت سے اپنا فون تکیے پہ پٹخ دیا ۔۔ آج اس پہ انکشاف ہوا لوگ صرف کہنا چاہتے ہیں اپنی سنانا چاہتے ہیں کسی کو ایک لمحے کے لئے بھی سننا نہیں چاہتے ۔۔ پھر اسے ڈپریشن کا شدید دورہ پڑا ۔۔
زارـⷶــⷢــᷧــᷧــᷦـــ ا مظہــⷢــⷽــⷩــᷦــⷶــⷨـــر