میں نے ایک جوان مریضہ *شمیم کو گزشتہ سال کلینک پر دیکھا تھا، گو کہ وہ اب اللہ کو پیاری ہو چکی ہے لیکن اس کا قصہ ایک وجہ سے یاد آ گیا ہے۔ وجہ بعد میں پہلے قصہ سنیں۔
شمیم جب پہلی دفعہ میرے پاس آئی تو گردن گلٹیوں کے سبب پوری سوجی ہوئی تھی۔ نہایت کمزور جسم لیکن رنگ گورا اور نین نقش جاذب نظر تھے۔ کندھے کے قریب ایک ٹَیٹُو بنوایا ہوا تھا جو کہ جمالیاتی ذوق کی عکاسی کرتا تھا۔ ساتھ بڑا بھائی اور شوہر آئے تھے۔ مجھے اس کی کچھ باتیں مشکوک سی لگیں تو میں نے بھائی اور شوہر کو باہر بھجوا کے نرس کو اندر بلوایا اور رازداری سے سوال کیا کہ آپ نشے کی عادت یا شادی کے باہر جنسی تعلق تو نہیں رکھتیں۔ نشے پر جواب تھا “جی کبھی کبھار شاید چکھا ہو” اور جنسی تعلق پر اس نے بہت زور سے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے مزید معائنہ کیا تو جنسی اعضاء چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ مریضہ کا جسم جنسی بیماریوں کا گڑھ ثابت ہو گا اور نشے کی پختہ عادت ہے بس ٹیسٹ کروانے کی دیر ہے۔ میں نے ٹیسٹ کروائے تو ایچ آئی وی ایڈز سے لے کر ہیپاٹائٹس اور آتشک (syphilis) تک ہر چیز ثابت ہو گئی۔ یہی نہیں بلکہ ایچ آئی وی کے سبب ایک مہلک کینسر بھی تشخیص ہوا۔
تمام رپورٹس دیکھنے کے بعد میرے لیے یہ سب کچھ فیملی کو بتانے کا مرحلہ نہایت مشکل تھا۔ شمیم کا بھائی، ماں اور شوہر میرے سامنے سہمے اور خاموش بیٹھے تھے۔ میں دماغ میں موجود الفاظ کے کُل ذخیرے کو پھرول کر مناسب جملے تراشنے کی کوشش کر رہا تھا۔ “مریضہ کو خطرناک قسم کا لمفوما نامی کینسررپورٹس میں ثابت ہوا ہے، جس کا ممکنہ سبب ایچ آئی وی بھی ہے۔ مریضہ کو ایڈز بھی ہو چکا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ مزید بھی کچھ عارضے ہیں۔”
میں ابھی جملہ مکمل نہ کر پایا تھا کہ بڑا بھائی اور والدہ التجائی نظروں سے مجھے خاموش رہنے یا رکنے کا اشارہ کرنے لگے۔ میں نے توقف کیا تو مریضہ کی والدہ نے اس کے شوہر کو کسی بہانے سے کمرے سے باہر بھجوا دیا اور پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا یہ وہی ایچ آئی وی ہے جو بری عادتوں کی وجہ سے ہوتا ہے؟ میں نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ مریضہ کو یہ کیسے ہوا لیکن اس کے پھیلنے کے عمومی اسباب جنسی تعلقات اور استعمال شدہ ٹیکے سوئیاں وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ والدہ یہ سن کر روتے روتے باہر نکل گئی۔ بھائی اندر رہ گیا اور مجھے کہنے لگا کہ “ڈاکٹر صاحب میں ہمیشہ اپنی بہن کو نشے اور غلط کاری سے روکتا تھا، لیکن یہ اپنی مرضی کرنے والی لڑکی تھی۔ ہمارے والد کے انتقال کے بعد یہ بالکل باغی ہو گئی اور خراب صحبت میں پڑ گئی۔ میں نے جیسے تیسے شادی کروائی، دو بچے بھی ہوئے لیکن اس نے اپنا چلن پھر بھی نہ بدلا۔ لیکن میری ماں شروع سے تمام حقائق دیکھ کر بھی ان دیکھے کرتی آ رہی ہے۔” ابھی ہماری بات چل ہی رہی تھی کہ ماں پھر اندر آ گئی، اس بار مُوڈ بالکل تبدیل تھا اور بات کرنے کی بجائے وہ مجھ سے جھگڑا کرنے لگی کہ میں اس کی بیٹی پر جھوٹے الزام لگا رہا ہوں۔ بھائی ماں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ ماں جی یہ رپورٹ آپ کے سامنے ہے، میں اپنی طرف سے تو کوئی بات کہہ نہیں رہا فقط رپورٹ کا لکھا آپ کو بتا رہا ہوں۔ لیکن بے سود! ماں نے اتنی لڑائی کی کہ بالآخر اسے زبردستی باہر نکال کر مجھے تمام علاج بھائی کو اکیلا بٹھا کر سمجھانا پڑا۔
شمیم تو تشخیص کے چند ہفتوں بعد وفات پا گئی لیکن اس کی ماں نے آخر تک نہیں مانا کہ اس کی بیٹی میں کوئی بری عادت موجود تھی۔ والدین شاید ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کے بارے کوئی بری چیز تصور میں بھی لائیں۔ ان کی نظروں سے نظر آنے والا “بچہ” سماج کا ایک آزاد بالغ فرد بن کے جب کوئی مجرمانہ فعل سرانجام دیتا ہے تو ان کی عقل اس حقیقت کو تسلیم تک کرنے سے عاجز رہتی ہے۔
مجھے یہ قصہ یاد آیا جب میں نے ایک باریش بزرگ کی ویڈیو دیکھی جن کا دعوی تھا کہ ان کے بیٹے کو کسی لڑکی نے ٹریپ کر کے طوھین کے کیس میں پھنسایا ہے۔ پھر میرے سامنے کہیں سے ان کے بیٹے کی ایف آئی آر اور 78 صفحوں کی فرانزک رپورٹ آ گئی، جس میں بتایا گیا تھا کہ بہت سے دیگر طریقوں سمیت کیسے مقدس ہستیوں کی فحش گرافکس مخصوص اعضاء پر بنا کر یہ لڑکا گروپس وغیرہ میں شیئر کیا کرتا تھا اور یہ کام کئی مہینوں سے لگاتار جاری تھا (جس سے یہ ایک آدھ دفعہ کسی لڑکی کے بہکاوے میں آ کے مواد شیئر کرنے والا معاملہ ہرگز نہیں لگتا)۔ اپنے باپ کے لیے بے شک یہ ایک معصوم بچہ تھا، ہے، اور شاید ہمیشہ رہے گا۔ بڑے بڑے اشتہاری اور درجنوں لوگوں کو موت کی نیند سُلانے والے بھی جب گھر آتے ہیں تو ان کی مائیں ان کا سر گود میں رکھ کر بالوں میں انگلیاں ہی پھیرتی ہیں۔ انسانوں کا بیک وقت اپنے ماؤں اور باپوں کے لیے “بچہ” ہونا اور سوسائٹی کے لیے “پُختہ کار مجرم” ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ ایک اہم سبق ہے۔ “متاثرہ خاندانوں” کے دردناک ویڈیو بیانات سامنے آئیں تو یہ پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پے دھواں دار جذباتی پراپیگنڈا ایک طرف اور عدالتی کاروائی اور متعدد کیسز میں تفصیلی فرانزکس دوسری طرف ایک حقیقت ہیں۔ دجل و فریب کے اس دور میں پراپیگنڈے کے زیر اثر حتمی موقف لیتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔
-Dr. Uzair Saroya
(Cancer Specialist)