دسمبر کی ایک صبح ہے۔ ہفتے کا دن ہے اور مجھے آج ویک اینڈ پر اپنے گھر گاؤں جانا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نوشہرہ ورکاں اپنی ملازمت کے دوران ہفتہ بھر وہیں رہتا اور ویک اینڈ پر گھر جایا کرتا تھا۔ لیکن اس دن میرے لیے گھر جانا آسان نہیں تھا۔ ابو جی اور اہلیہ کے لیے دوا لینی تھی ضوریز احمد پیدا ہونے والا تھا۔ اور میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ جمعے والے دن سے سوچ رہا تھا کہ کس سے ادھار لوں۔ دل کسی طور بھی نہیں مان رہا تھا کہ کسی کے سامنے اپنا بھرم توڑوں۔ دس بیس ہزار کی کیا حیثیت تھی دینے کو تو لاکھوں روپے ایک منٹ میں دے دینے والے کئی دوست صرف ایک کال میسج کی دوری تھے۔ مگر ہاتھ پھیلانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔
سکول سے چھٹی ہوئی تو فلیٹ پر آگیا۔ سردی کے دن چھوٹے ہوتے ہیں ت عصر کی اذان شروع ہوگئی۔ سوچ رہا تھا کہ دوا کیسے لوں۔ مالک مکان کا مجھے فون آیا کہ ماسٹر صاحب آپ یہیں ہیں یا چلے گئے؟ میں نے کہا ادھر ہی ہوں۔ بولے میرے بھتیجے کی شادی ہے۔ آج بارات ہے۔ جو گاڑی دولہے والی تھی اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ اب دو گھنٹے بعد ہم نے جانا ہے کوئی گاڑی نہیں مل رہی۔ شادیوں کا سیزن ہے اور آج ہفتے کا دن ہے۔ پھول لگا کر اپنی گاڑی لے آئیں تو مہربانی ہوگی۔ میں نے کہا چاچا جی کوئی ایشو نہیں ہے۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔ میں آیا بس۔ بازار گیا گاڑی پر فورا جائز مناسب سے پھول لگوائے اور انکے گاؤں چلا گیا۔
بارات نوشہرہ ورکاں ہی آنی تھی۔ میرے ساتھ فرنٹ پر دلہا اور پیچھے گھر کی دو خواتین بیٹھ گئیں۔ چاچا جی نے سب کو بتایا یہ ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہیں۔ جب دلہن کو لے کر واپس نکلنے لگے۔ تو چاچا جی نے مجھے دس ہزار وہیں پکڑانا چاہے کہ گھر جا کر مصروف ہو جائیں گے۔ مجھے پیسوں کی بہت ضرورت تھی۔ اتنی کہ بتا نہیں سکتا۔ مگر میں نے نجانے کیوں اپنا جھوٹا بھرم رکھنے کو وہ پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ اور بارات دلہن کو لے کر گاؤں کی جانب چل پڑی۔ دھند بہت زیادہ ہو چکی تھی۔ زیرو کی سپیڈ پر دو گھنٹوں میں آدھے گھنٹے کا سفر طے کر کے گھر پہنچے۔ میں ابھی گلی سے واپس گاڑی موڑ ہی رہا تھا۔ کہ دلہا تیزی سے میری طرف آیا۔ اس نے مجھے ہزار پانچ سو پانچ ہزار کے نجانے کتنے نوٹ گچھا مچھا ہوئے پکڑائے۔ اور کہا کہ یہ “آپکی بیٹی” نے آپ کو دینے کو کہا ہے۔ انکار نہیں کیجیے گا۔ میں نے نام پوچھا تو بولا بتانے کو سختی سے منع کیا ہے۔ میں نے پوچھا ہے کون۔ بولا میری بیوی۔ چند منٹ ہمارا تکرار چلتا رہا مگر وہ بلکل نہیں مانا اور کہا کہ ایک روپیہ بھی واپس لینا اس پر حرام ہے۔ اور آج آپ یہاں رکیں اس موسم میں واپس جانا کہاں ممکن ہے۔
میں نے وقتی طور پر پیسے قبول کر لیے۔ میں رات نہیں رکا اور واپس گھر آگیا۔ گھر آکر دیکھا تو وہ پیسے اسی ہزار روپے کے قریب تھے۔
اتوار کو جا کر دوائیاں لے آیا۔ چچا مالک مکان سے دلہے کا نمبر لے کر سوموار کو کال کی۔ اسے کہا کہ پیسے میرے پاس امانت ہیں۔ کچھ لگ گئے ہیں باقی لے لو یار اور جو لگ گئے وہ چند دن تک تنخواہ آتی تو کوئی اکاؤنٹ دینا اس میں ٹرانسفر کر دونگا۔ اور اپنی بیوی کا مجھے نام تو بتا دو۔ اس نے مختصر بات کی کہ نہ تو پیسے واپس ہونگے اور نام نہ بتانے کا تو عہد دیا ہوا ہے۔ ہاں اسکے پاس آپکا نمبر ہے وہ کہتی ہے جب کرنا ہوا خود رابطہ کر لے گی۔
تین دن قبل مجھے ایک پیغام ملا۔
“سر وہ میں تھی”
فلاں بنت فلاں آپ کی کنڈرگارٹن اکیڈمی سے ایم اے اردو کی طالبہ۔
اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں سر میاں نوشہرہ ورکاں کے سکول میں ایم اے اردو کی کلاس شروع ہوئی۔ جنہوں نے وہ کلاس لینی تھی وہ استاد تو نہ کلاس لے سکے۔ میاں صاحب قریبی دوست تھے تو انہوں نے کہا چند دن کلاس کو چلائیں۔ آپ ادبی بندے ہیں۔ اب بنی کلاس ختم نہیں کر سکتے۔ اور پھر وہ سارا سیشن ہی کلاس میرے پاس رہی۔ وہ بیٹی اسی کلاس کی ایک طالبہ تھی۔
سر وہ میں تھی۔ اس پہلے ایک پیغام نے ہی مجھے یاد کروا دیا کہ کیا بات ہورہی ہے۔ میں اسی سرد شام میں چلا گیا۔ اور وقت ایک لمحے میں کئی سال پیچھے چلا گیا۔ میں نے پوچھا کال کر سکتا ہوں؟ جواب آیا سو بسم اللہ
میری آنکھیں پانی سے بھیگی ہوئی تھیں۔ آواز بھی بھرا گئی تھی۔ پوچھا کیسی ہو؟ بولی ٹھیک ہوں سر آپ کیسے ہیں؟ پوچھا وہ پیسے کیوں دیے تھے اور اتنے سارے؟ بولی سامنے لگے شیشے سے آپ کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ آپ پریشان لگ رہے تھے۔ سوچا ہمارے سر ٹیکسی چلانے کب سے لگے ہیں۔ دل بیٹھ سا گیا۔ اللہ خیر کرے۔ تب یہ بھی معلوم نہیں تھا گاڑی آپ کی اپنی ہے۔ آپ کیسے آئے ایسا کچھ شادی کے پہلے دن کس سے پوچھ سکتی تھی؟ تو جو مناسب لگا وہ کر دیا۔ وہ پیسے شادی ہال میں مجھے سلامی میں ملے تھے۔ جتنے تھے سب کے سب بھجوا دیے۔ گھر جاتے ہی خاوند کو الگ کرکے کہا فوراً جائیں وہ میرے استاد ہیں۔ اور ان کو یہ پیسے دے کر آئیں۔
میں نے بتایا کہ ہاں اس دن مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اور یہ ایک معجزہ تھا۔ بولی میں نے بھی اپنے دل کی سنی تھی۔ اب آپ لوٹانا چاہیں تو لوٹا سکتے ہیں۔ میری ساس نے کئی ماہ تک پوچھا سلامی کے پیسوں سے کوئی زیور بنوا لو۔ میرے خاوند نے پھر ان کو کہہ دیا وہ پیسے میں نے لے لیے ہیں۔ اور امی ان سے لڑنے لگی کہ کیوں لیے ہیں۔ واپس کرو۔
آج بھی شاید نہ ہی بتاتی۔ کئی بار سوچا آپ کبھی سوچتے ہونگے وہ پاگل کون تھی۔ تو آپ کی مشکل آسان کر دی۔ اب تو آپ کے لیے ستر اسی ہزار واپس کرنے کوئی مشکل نہیں ہونگے۔
میں اس دن سے یہ ہی سوچ رہا ہوں کہ کچھ بھی ہوجائے انسانی جذبات کا بھی متبادل کبھی کچھ بن سکے گا؟ اے آئی یا کچھ اور انسان بنا لے، محبت عزت اور احترام کے جذبے انسان کے سوا کس مخلوق یا کسی مشین میں کیا کبھی آ پائیں گے؟ دنیا کیا کی کیا ہوجائے انسانیت اور انسانی جذبات کبھی بھی کسی شے سے ری پلیس نہیں ہونگے۔ اور حضرت انسان خود کسی نہ کسی طرح انسانیت کو متاثر کرتا رہے گا۔ بیٹیوں کی جگہ کبھی بیٹے نہ لے پائیں گے۔ میری اس بیٹی کو ایک استاد کا سلام۔
خطیب احمد
1 تعليق
[…] سچا واقعہ ایک شاگرد نے اپنی سلامی کے پیسے استاد کو دے دی… […]