
ماہین کی شادی بی ایس کے بعد ہی ہو گئی تھی۔ وہ ایم فل میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن بی ایس کے آخری سمسٹر میں ایک اچھا رشتہ آگیا اور اس کے والدین نے ہاں کر دی۔ ویسے بھی اس کے والدین کے لیے اس کی مزید تعلیمی اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ بھائی اس کا کوئی تھا نہیں، بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اورچند ماہ قبل والد صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد اب پینشن پر گزارا کر رہے تھے۔ والد صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے حالات بہت اچھے تھے کیونکہ اس کے والد صاحب جاب کے ساتھ ساتھ کچھ دوستوں کے ساتھ بھی انویسٹ کرتے رہتے تھے۔ لیکن اب جاب سے بھی ریٹائر ہو گئے تھے، جو پیسہ تھا وہ بیٹیوں کی شادی پر خرچ ہو چکا تھا، جو باقی تھا وہ ماہین کی شادی کے لیے بچا رکھاتھا اور اب گرتی صحت کی وجہ سے کچھ اضافی کام ممکن بھی نہ تھا اور علاج پر بھی کافی خرچ ہو رہا تھا۔
علی شیر سے اس کا رشتہ ہوا تھا، جو مالی طور پر مضبوط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ والدین کی ایک حادثے میں وفات کے بعد وہ گھر میں بالکل ہی اکیلا رہ گیا تھا اس لیے بھی اسے اب شادی کی زیادہ جلدی تھی تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد اس نے سارا بزنس سنبھال لیا تھا اور بلاشبہ لاکھوں میں کما رہا تھا۔
یہ ان کی محبت کی شادی تو نہیں تھی لیکن ابھی تک شادی کے پہلے ڈیڑھ سال بہت اچھے گزرے تھے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ وہ یورپ بھی اکٹھے گھوم پھر کے آئے تھے۔
بی ایس میں ماہین کا اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ ایک گروپ تھا جس میں چار لڑکے اور چھ لڑکیاں تھیں۔ وہ سب بہت اچھے دوست تھے اور کئی بار باہر کھانا کھانے بھی جاتے رہتے تھے۔ ماہین کے علاوہ باقی سب نے ایم فل میں داخلہ لیا تھا اور اب ان سب کا آخری سمسٹر تھا جب انھوں نے ایک ساتھ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں تین دن کے ٹور کا پلان بنایا اور ماہین کو بھی ساتھ شامل ہونے کا کہا۔
ماہین نے اپنے شوہر سے پوچھے بغیر ہی ہاں کہہ دی تھی کیونکہ اب نہ تو اسے کوئی پیسوں کا مسئلہ تھا اور نہ ہی وقت کا۔نہ وہ خود اتنی زیادہ مذہبی تھی نہ اس کا شوہر۔ وہ اپنی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ شام کو علی شیر گھر آیا تو اس نے تیاریاں اور اس کی خوشی دیکھ کر پوچھا کہ کہاں کی تیاری ہے۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ تین دن کے ٹور کا بتایا۔ جب علی شیر کو معلوم ہوا کہ گروپ میں لڑکے بھی ہیں تواس نے صاف منع کر دیا۔
لیکن ماہین نے اپنی تیاریاں جاری رکھیں۔ اسے لگا یہ ویسے ہی ہے جیسے والدین پہلے منع کر دیتے تھے لیکن تھوڑی سی ضد کرنے پر مان جاتے تھے۔ علی شیر نے تھوڑی سی نرمی دکھاتے ہوئے کہا کہ اگر صرف لڑکیوں نے ساتھ جانا ہو تو میں گاڑی اور ڈرائیور کا انتظام کر دیتا ہوں، چلی جاؤ۔ یا پھر کلاس نے جانا ہو تو کوئی ٹیچر ساتھ جائے تب بھی چلی جاؤ لیکن اگر کوئی ٹیچر ساتھ نہیں ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں کا گروپ ہے پھر کسی صورت نہیں۔
ماہین نے ضد کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں اب ہاں کہہ چکی ہوں اور مجھے جانا ہے۔ علی شیر نے کہا کہ میری اجازت کے بغیر کیسے جا سکتی ہو؟ اور اسی پر بات مزید بگڑ گئی۔
ماہین نے کہہ دیا کہ مجھے کہیں جانے کے لیے تمہاری اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہ ان دونوں کی شادی کے بعد پہلی لڑائی تھی جو آخری ثابت ہوئی کیونکہ علی شیر نے اب کہہ دیا تھا کہ اگر تم اپنی ضد سے باز نہ آئیں تو تمہیں طلاق دے دوں گا۔
ماہین نے اسے کہا کہ میں تو تمہیں پڑھا لکھا شخص سمجھتی تھی مگر تمہاری سوچ بھی جاہل دقیانوسی مردوں کی طرح گھٹیا ہے، دے دو طلاق مجھے، اس کے علاوہ تم کر بھی کیا سکتے ہو۔ تم کنجوس ہو، پیسے بچانے کے خاطر مجھے جانے کی اجازت نہیں دے۔
علی شیر نے کہا کہ میں پہلے بھی تمہیں لے کر بہت سی جگہوں پر گیا ہوں اور ہم اگلے ماہ پلان کر لیتے ہیں، میں ان ساری جگہوں پر خود لے جاتا ہوں جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ یا پھر تم صرف کلاس فیلوز لڑکیوں کے ساتھ چلی جاؤ، سارا انتظام بھی میرے ذمے اور سارا خرچ بھی۔
لیکن ماہین کا اصرار برقرار رہا کہ اسے اپنے گروپ کے ساتھ لازمی جانا ہے۔ لڑائی مزید بڑھی تو علی شیر نے اسے طلاق دے دی اور وہ غصے سے سب کچھ وہیں چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر آگئی۔ اس واقعہ کے بعد ان کا ٹور کینسل ہوگیا۔
ماہین کے ذہن میں ابھی بھی یہی تھا کہ علی شیر نے کنجوسی کی وجہ سے اسے نہیں جانے دیا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جاب کرے گی، اور پیسے جمع کر کے اگلے سال سب دوستوں کے ساتھ جائے گی۔ اس نے بہت محنت اور مشکلوں سے جاب کی، پیسے جمع کر ہی لیے۔ اس سب کے دوران اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ پیسہ کمانا کتنا مشکل ہے اور پہلے اس کی زندگی کتنی آسان تھی۔ پھر والدین سمیت سب لوگوں کی باتوں نے بھی اس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ ایک سال بعد اس نے اپنے گروپ نے سب دوستوں کو پھر سے ٹور کے لیے کہا۔ تب تک ان سب کا ایم فل پورا ہو چکا تھا۔ تین لڑکیوں اور ایک لڑکے کی شادی ہوچکی تھی، باقیوں کی جاب کا ابھی سٹارٹ تھا، اس لیے ان میں سے کوئی بھی ٹور کے لیے راضی نہ ہوا۔
تب اسے پہلی بار احساس ہواکہ کوئی شخص اس کے لیے وقت اور پیسہ لگانے کو تیار نہیں تھا، گھر اجاڑنا تو بہت دور کی بات ہے۔ علی شیر نے دوسری شادی کر لی تھی اور وہ اپنے گھر میں خوش تھا۔ اس کے گروپ کے دوست اپنی اپنی زندگی میں مگن اور مصروف۔اپنا ہنستا بستا گھراجاڑ کر وہ بالکل تنہا ہو چکی تھی۔ اس کے صدمے سے والدین اب بالکل ہی بستر سے لگ چکے تھے۔ اسے اب جا کر اپنی غلطی کا مکمل ادراک ہو گیا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عدنان نیازی
نوٹ: اس واقعہ کی جزئیات ایک دوست نے بتائی ہیں لیکن میں خود اس واقعہ کے تمام کرداروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ شناخت چھپانے کے لیے کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔